EN हिंदी
وہ جنوں کے عہد کی چاندنی یہ گہن گہن کی اداسیاں | شیح شیری
wo junun ke ahd ki chandni ye gahan gahan ki udasiyan

غزل

وہ جنوں کے عہد کی چاندنی یہ گہن گہن کی اداسیاں

شمیم کرہانی

;

وہ جنوں کے عہد کی چاندنی یہ گہن گہن کی اداسیاں
وہ قفس قفس کی چہل پہل یہ چمن چمن کی اداسیاں

جو محل کے جھاڑ اتار لو تو ملے زمیں کو بھی روشنی
انہیں خلوتوں نے بڑھائی ہیں مری انجمن کی اداسیاں

مرا دل ہے دشت غم جہاں کبھی آ کے سیر تو کیجیے
یہ جنوں جنوں کی مسافرت یہ وطن وطن کی اداسیاں

مجھے کیسے دشت میں لائے تم کہ صدی صدی کے سفر پہ بھی
وہی رنگ و نسل کی وحشتیں وہی ما و من کی اداسیاں

کوئی اے شمیمؔ کہے ذرا یہ اداس شاعر وقت سے
کہ حیات دل کو بجھا نہ دیں کہیں فکر و فن کی اداسیاں