وہ جو تھا وہ کبھی ملا ہی نہیں
سو گریباں کبھی سلا ہی نہیں
اس سے ہر دم معاملہ ہے مگر
درمیاں کوئی سلسلہ ہی نہیں
بے ملے ہی بچھڑ گئے ہم تو
سو گلے ہیں کوئی گلہ ہی نہیں
چشم میگوں سے ہے مغاں نے کہا
مست کر دے مگر پلا ہی نہیں
تو جو ہے جان تو جو ہے جاناں
تو ہمیں آج تک ملا ہی نہیں
مست ہوں میں مہک سے اس گل کی
جو کسی باغ میں کھلا ہی نہیں
ہائے جونؔ اس کا وہ پیالۂ ناف
جام ایسا کوئی ملا ہی نہیں
تو ہے اک عمر سے فغاں پیشہ
ابھی سینہ ترا چھلا ہی نہیں
غزل
وہ جو تھا وہ کبھی ملا ہی نہیں
جون ایلیا