EN हिंदी
وہ جو تیری طلب میں ایذا تھی | شیح شیری
wo jo teri talab mein iza thi

غزل

وہ جو تیری طلب میں ایذا تھی

حفیظ تائب

;

وہ جو تیری طلب میں ایذا تھی
میرے ہر درد کا مداوا تھی

میں تماشا تھا اک جہاں کے لئے
اس پہ بھی حسرت تماشا تھی

لاکھ راہیں تھیں وحشتوں کے لیے
کس لیے بند راہ صحرا تھی

میری رسوائی تھی مری توقیر
میری تنہائی تھی میری ساتھی

تج کے دنیا کو جب چلے تائبؔ
ساتھ اک آرزو کی دنیا تھی