وہ جو سب کا بہت چہیتا تھا
قبر کی ساعتوں میں تنہا تھا
جس نے دنیا کو خوب دیکھا تھا
اس کی آنکھوں میں قہقہہ سا تھا
رنج کیا خواب کے بکھرنے کا
کچھ نہ تھا ریت کا گھروندا تھا
اس کے آنگن میں روشنی تھی مگر
گھر کے اندر بڑا اندھیرا تھا
وہ بھی پتھرا کے رہ گیا آخر
اس کی آنکھوں میں جو سویرا تھا
ایک پنجرا اداس تنہائی
اس نے کیا کیا خدا سے مانگا تھا
شاخ جھلسی ہوئی تھی اور اس پر
ایک سہما ہوا پرندہ تھا
قہقہوں کی برات نکلی تھی
درد کی چیخ کون سنتا تھا
پل نہ تھا اور سامنے اس کے
ایک طوفاں بدوش دریا تھا
ایک خوشبو کا بانٹنے والا
گندی بستی کا رہنے والا تھا
دکھ میں آخر یہ کھل گیا قیصرؔ
نام اک مصلحت کا رشتہ تھا
غزل
وہ جو سب کا بہت چہیتا تھا
قیصر شمیم