وہ جو ممکن نہ ہو ممکن یہ بنا دیتا ہے
خواب دریا کے کناروں کو ملا دیتا ہے
زندگی بھر کی ریاضت مری بیکار گئی
اک خیال آیا تھا بدلے میں وہ کیا دیتا ہے
اب مجھے لگتا ہے دشمن مرا اپنا چہرہ
مجھ سے پہلے یہ مرا حال بتا دیتا ہے
چند جملے وہ ادا کرتا ہے ایسے ڈھب سے
میرے افکار کی بنیاد ہلا دیتا ہے
یہ بھی اعجاز محبت ہے کہ رونے والا
روتے روتے تجھے ہنسنے کی دعا دیتا ہے
زندگی جنگ ہے اعصاب کی اور یہ بھی سنو
عشق اعصاب کو مضبوط بنا دیتا ہے
بیٹھے بیٹھے اسے کیا ہوتا ہے جانے تیمورؔ
جلتا سگرٹ وہ ہتھیلی پہ بجھا دیتا ہے
یہ جہاں اس لیے اچھا نہیں لگتا تیمورؔ
جب بھی دیتا ہے مجھے تیرا گلا دیتا ہے

غزل
وہ جو ممکن نہ ہو ممکن یہ بنا دیتا ہے
تیمور حسن