EN हिंदी
وہ جو مجھ سے خفا نہیں ہوتا | شیح شیری
wo jo mujhse KHafa nahin hota

غزل

وہ جو مجھ سے خفا نہیں ہوتا

شفا کجگاؤنوی

;

وہ جو مجھ سے خفا نہیں ہوتا
درد حد سے سوا نہیں ہوتا

میری کوشش کو جو رضا ملتی
لفظ یوں بے صدا نہیں ہوتا

ہم زباں تو بہت ملے لیکن
کیوں کوئی ہم نوا نہیں ہوتا

ہم اگر پہلے جاگ جاتے تو
سانحہ وہ ہوا نہیں ہوتا

آگ بستی کی گر بجھاتا تو
اس کا گھر بھی جلا نہیں ہوتا

کوئی کوشش کبھی تو کی ہوتی
تم سے کچھ بھی چھپا نہیں ہوتا

فکر ہوتی نہیں جو روٹی کی
کوئی اپنا جدا نہیں ہوتا