وہ جو مجھ سے خفا نہیں ہوتا
درد حد سے سوا نہیں ہوتا
میری کوشش کو جو رضا ملتی
لفظ یوں بے صدا نہیں ہوتا
ہم زباں تو بہت ملے لیکن
کیوں کوئی ہم نوا نہیں ہوتا
ہم اگر پہلے جاگ جاتے تو
سانحہ وہ ہوا نہیں ہوتا
آگ بستی کی گر بجھاتا تو
اس کا گھر بھی جلا نہیں ہوتا
کوئی کوشش کبھی تو کی ہوتی
تم سے کچھ بھی چھپا نہیں ہوتا
فکر ہوتی نہیں جو روٹی کی
کوئی اپنا جدا نہیں ہوتا
غزل
وہ جو مجھ سے خفا نہیں ہوتا
شفا کجگاؤنوی