وہ جو ملتا تھا کبھی مجھ سے بہاروں کی طرح
آج چبھتا ہے نگاہوں میں وہ خاروں کی طرح
وہ بھی کیا شخص ہے جو قصر تصور میں مجھے
روز آراستہ کرتا ہے مزاروں کی طرح
ڈوبنے ہی نہیں دیتا کبھی کشتی میری
اب بھی وہ سامنے رہتا ہے کناروں کی طرح
لاکھ مہتاب مری زیست میں آئے لیکن
درمیاں تجھ کو بھی دیکھا ہے ستاروں کی طرح
اس کی آنکھوں نے عجب سحر کیا ہے ہم پر
رات بھر پھرتے رہے بادہ گساروں کی طرح
آپ کی آنکھوں سے کچھ اور پتہ چلتا ہے
آپ دیکھا نہ کریں ہم کو نظاروں کی طرح
کس کو معلوم چھپائے ہے وہ خنجر کتنے
وہ جو ظاہر میں ملا کرتا ہے یاروں کی طرح
اس کے چہرے پہ تو نرمی ہے حلاوت ہے بہت
شمعؔ لہجہ ہے مگر اس کا شراروں کی طرح
غزل
وہ جو ملتا تھا کبھی مجھ سے بہاروں کی طرح
سیدہ نفیس بانو شمع