وہ جو لوگ اہل کمال تھے وہ کہاں گئے
وہ جو آپ اپنی مثال تھے وہ کہاں گئے
مرے دل میں رہ گئی صرف حیرت آئنہ
وہ جو نقش تھے خد و خال تھے وہ کہاں گئے
گری آسماں سے تو خاک خاک میں آ ملی
کبھی خاک میں پر و بال تھے وہ کہاں گئے
سر جاں یہ کیوں فقط ایک شام ٹھہر گئی
شب و روز تھے مہ و سال تھے وہ کہاں گئے
مرے ذہن کا یہ شجر اداس اداس ہے
وہ جو طائران خیال تھے وہ کہاں گئے
غزل
وہ جو لوگ اہل کمال تھے وہ کہاں گئے
خورشید رضوی