وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا
میری بستی کسی صحرا میں بسا دی گئی کیا
وہی لہجہ ہے مگر یار ترے لفظوں میں
پہلے اک آگ سی جلتی تھی بجھا دی گئی کیا
جو بڑھی تھی کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے
میں یہیں ہوں تو وہی موج بہا دی گئی کیا
پاؤں میں خاک کی زنجیر بھلی لگنے لگی
پھر مری قید کی میعاد بڑھا دی گئی کیا
دیر سے پہنچے ہیں ہم دور سے آئے ہوئے لوگ
شہر خاموش ہے سب خاک اڑا دی گئی کیا
غزل
وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا
عرفانؔ صدیقی