EN हिंदी
وہ جو اک الزام تھا اس پر کہیں | شیح شیری
wo jo ek ilzam tha us par kahin

غزل

وہ جو اک الزام تھا اس پر کہیں

توقیر رضا

;

وہ جو اک الزام تھا اس پر کہیں
آ نہ جائے اب ہمارے سر کہیں

جس کی خاطر قافلہ روکا گیا
وہ مسافر چل دیا اٹھ کر کہیں

جب وہ دو پنچھی ملے تھے کھیت میں
پھر نظر آ جائے وہ منظر کہیں

خواہشوں کے غار کا منہ بند ہے
تم ہٹا دینا نہ وہ پتھر کہیں

آسماں سے آنے والے سات رنگ
تھے کسی کے، آ کے اترے، پر کہیں

دل کی اک امید دل میں رہ گئی
اک دیا سا بجھ گیا جل کر کہیں

لاپتہ ہے اک سمندر آج تک
جھانک بیٹھا تھا مرے اندر کہیں

ڈس نہ لے مجھ کو کہیں خوشبو تری
کھا نہ جائے مجھ کو یہ بستر کہیں

آ گیا وہ جسم کے ملبے تلے
میں گرا دہلیز سے باہر کہیں

دھوپ کے لمبے سفر کے بعد ہم
سانس لیں گے سائے میں رک کر کہیں