EN हिंदी
وہ جو ہر راہ کے ہر موڑ پر مل جاتا ہے | شیح شیری
wo jo har rah ke har moD par mil jata hai

غزل

وہ جو ہر راہ کے ہر موڑ پر مل جاتا ہے

عابد عالمی

;

وہ جو ہر راہ کے ہر موڑ پر مل جاتا ہے
اب کے پوچھیں گے کہ اس شخص کا قصہ کیا ہے

میں وہ پتھر ہوں نہیں جس کو ملا سنگ تراش
میں نے ہر شکل کو اپنے میں سمو رکھا ہے

یوں ہی چپ چاپ بھلا بیٹھے رہو گے کب تک
کوئی دروازہ کہیں یوں بھی کھلا کرتا ہے

جب بھی گرتی ہے کسی کوچے میں کوئی دیوار
مجھ کو لگتا ہے کوئی شخص بہت رویا ہے

پاؤں جلتے ہیں یہاں جسم بھی جل جائے گا
تم نے کیا سوچ کے صحرا میں قدم رکھا ہے

ٹوٹتے بنتے ہی یہ عمر گزر جائے گی
میری ہر شکل میں اک نقص ابھر آتا ہے

ہم نے ہر دور کے سینے میں ہیں گھونپے خنجر
اور ہر دور کے سینے سے لہو ٹپکا ہے

تم نے پوچھا ہے کہ تم کیا ہو کہاں ہو کیوں ہو
یہ تو بتلاؤ کہ اس سوچ میں کیا رکھا ہے

دشت کے پیڑوں سے کیا پوچھ رہے ہو عابدؔ
بھول جاؤ کہ تمہیں کوئی صدا دیتا ہے