وہ جو اعتبار جمال تھے وہ کہاں گئے
وہ جو آپ اپنی مثال تھے وہ کہاں گئے
کبھی ہر طرف کوئی دل کشی سی محیط تھی
اسی دشت میں جو غزال تھے وہ کہاں گئے
کہیں ایک پل کو بھی تو نظر نہیں آ رہا
غم دل ترے مہ و سال تھے وہ کہاں گئے
وہ جو خواب لے کے چلے تھے ہم وہ کہاں گیا
وہ جو اس کے غم میں نڈھال تھے وہ کہاں گئے
کبھی پہروں اس کا بس اک اسی کا خیال تھا
وہ جو ہجر تھے جو وصال تھے وہ کہاں گئے
کبھی پہلے جب وہ ملا تھا ویسا نہیں رہا
کئی رنگ اس میں کمال تھے وہ کہاں گئے
یہ جو لوگ میرے قریب ہیں یہ کہاں کے ہیں
وہ جو حسن خواب و خیال تھے وہ کہاں گئے

غزل
وہ جو اعتبار جمال تھے وہ کہاں گئے
خالد محمود ذکی