EN हिंदी
وہ جو بچھڑے موت یاد آنے لگی | شیح شیری
wo jo bichhDe maut yaad aane lagi

غزل

وہ جو بچھڑے موت یاد آنے لگی

نذیر بنارسی

;

وہ جو بچھڑے موت یاد آنے لگی
زندگی تنہا تھی گھبرانے لگی

جب وہ میرے حال پر ہنسنے لگے
مجھ کو دنیا پر ہنسی آنے لگی

گھر سے وہ جاتے ہیں گھر کی خیر ہو
رونق دیوار و در جانے لگی

اتنا جاگے انتظار دوست میں
حسرتوں کو نیند سی آنے لگی

بے سہارا ہو چلی تھی زندگی
وہ تو کہیے ان کی یاد آنے لگی

اس نظر کی ایک جنبش پر نذیرؔ
کائنات عشق لہرانے لگی