EN हिंदी
وہ جس کو ہم نے اپنایا بہت ہے | شیح شیری
wo jis ko humne apnaya bahut hai

غزل

وہ جس کو ہم نے اپنایا بہت ہے

ساحر ہوشیار پوری

;

وہ جس کو ہم نے اپنایا بہت ہے
اسی نے دل کو تڑپایا بہت ہے

ہمارے قتل کی سازش کے درپئے
ہمارا نیک ہم سایہ بہت ہے

دل درد آشنا شوق شہادت
محبت میں یہ سرمایہ بہت ہے

عجب شے ہے چمن زار تمنا
ثمر کوئی نہیں سایہ بہت ہے

خطا اس کی نہیں دل کو ہمیں نے
تمناؤں میں الجھایا بہت ہے

خدا محفوظ رکھے آسماں کو
زمیں کو اس نے جھلسایا بہت ہے

تری یاد آئی ہے تو آج ہم کو
دل گم گشتہ یاد آیا بہت ہے

بہ نام حضرت ناصح بھی اک جام
کہ اس نے وعظ فرمایا بہت ہے

نہ کیوں ٹھکرائیں ہم دنیا کو ساحرؔ
ہمیں بھی اس نے ٹھکرایا بہت ہے