EN हिंदी
وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں | شیح شیری
wo jhankar paida hai tar-e-nafas mein

غزل

وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں

شیر سنگھ ناز دہلوی

;

وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں
کہ ہے نغمہ نغمہ مری دسترس میں

تصور بہاروں میں ڈوبا ہوا ہے
چمن کا مزہ مل رہا ہے قفس میں

گلوں میں یہ سرگوشیاں کس لیے ہیں
ابھی اور رہنا پڑے گا قفس میں

نہ جینا ہے جینا نہ مرنا ہے مرنا
نرالی ہیں سب سے محبت کی رسمیں

نہ دیکھی کبھی ہم نے گلشن کی صورت
ترستے رہے زندگی بھر قفس میں

کہو خواہ کچھ بھی مگر سچ تو یہ ہے
جو ہوتے ہیں جھوٹے وہ کھاتے ہیں قسمیں

میں ہونے کو یوں تو رہا ہو گیا ہوں
مری روح اب تک ہے لیکن قفس میں

نہ گرتا میں اے نازؔ ان کی نظر سے
دل اپنا یہ کم بخت ہوتا جو بس میں