EN हिंदी
وہ جب دے گا جو کچھ دے گا دے گا اپنے والوں کو | شیح شیری
wo jab dega jo kuchh dega dega apne walon ko

غزل

وہ جب دے گا جو کچھ دے گا دے گا اپنے والوں کو

بدر واسطی

;

وہ جب دے گا جو کچھ دے گا دے گا اپنے والوں کو
ویسے بھی کچھ ملتا کب ہے دھوپ میں تپنے والوں کو

دین دھرم محفوظ ہیں لیکن تصویروں جزدانوں میں
وقت پڑے تو لے آتے ہیں مالا جپنے والوں کو

خوابوں کی بارش تو سارے زخم ہرے کر دیتی ہے
نیند کہاں سے آئے گی پھر بھیگے سپنے والوں کو

اخباروں کی سرخی بننا سب کے بس کی بات نہیں
اونچا مول چکانا پڑتا ہے روز کے چھپنے والوں کو

جانے کیسے ایسے ویسے آگے بڑھتے جاتے ہیں
پاس سے جا کر کس نے دیکھا بدرؔ پنپنے والوں کو