وہ جب دے گا جو کچھ دے گا دے گا اپنے والوں کو
ویسے بھی کچھ ملتا کب ہے دھوپ میں تپنے والوں کو
دین دھرم محفوظ ہیں لیکن تصویروں جزدانوں میں
وقت پڑے تو لے آتے ہیں مالا جپنے والوں کو
خوابوں کی بارش تو سارے زخم ہرے کر دیتی ہے
نیند کہاں سے آئے گی پھر بھیگے سپنے والوں کو
اخباروں کی سرخی بننا سب کے بس کی بات نہیں
اونچا مول چکانا پڑتا ہے روز کے چھپنے والوں کو
جانے کیسے ایسے ویسے آگے بڑھتے جاتے ہیں
پاس سے جا کر کس نے دیکھا بدرؔ پنپنے والوں کو

غزل
وہ جب دے گا جو کچھ دے گا دے گا اپنے والوں کو
بدر واسطی