وہ جانے کتنا سر بزم شرمسار ہوا
سنا کے اپنی غزل میں قصوروار ہوا
ہزار بار وہ گزرا ہے بے نیازانہ
نہ جانے کیوں مجھے اب کے ہی نا گوار ہوا
ہزاروں ہاتھ مری سمت ایک ساتھ اٹھے
مگر میں ایک ہی پتھر میں سنگسار ہوا
میں تیری یاد میں گم تھا کہ کھا گیا ٹھوکر
یہ حادثہ مری راہوں میں بار بار ہوا
غزل
وہ جانے کتنا سر بزم شرمسار ہوا
فنا نظامی کانپوری