EN हिंदी
وہ جانے کتنا سر بزم شرمسار ہوا | شیح شیری
wo jaane kitna sar-e-bazm sharmsar hua

غزل

وہ جانے کتنا سر بزم شرمسار ہوا

فنا نظامی کانپوری

;

وہ جانے کتنا سر بزم شرمسار ہوا
سنا کے اپنی غزل میں قصوروار ہوا

ہزار بار وہ گزرا ہے بے نیازانہ
نہ جانے کیوں مجھے اب کے ہی نا گوار ہوا

ہزاروں ہاتھ مری سمت ایک ساتھ اٹھے
مگر میں ایک ہی پتھر میں سنگسار ہوا

میں تیری یاد میں گم تھا کہ کھا گیا ٹھوکر
یہ حادثہ مری راہوں میں بار بار ہوا