وہ اس انداز کی مجھ سے محبت چاہتا ہے
مرے ہر خواب پر اپنی حکومت چاہتا ہے
مرے ہر لفظ میں جو بولتا ہے مجھ سے بڑھ کر
مرے ہر لفظ کی مجھ سے وضاحت چاہتا ہے
بہانہ چاہئے اس کو بھی اب ترک وفا کا
میں خود اس سے کروں کوئی شکایت چاہتا ہے
اسے معلوم ہے میرے پروں میں دم نہیں ہے
مرا صیاد اب مجھ سے بغاوت چاہتا ہے
وہ کہتا ہے کہ میں اس کی ضرورت بن چکی ہوں
تو گویا وہ مجھے حسب ضرورت چاہتا ہے
کبھی اس کے سوالوں سے مجھے لگتا ہے ایسے
کہ جیسے وہ خدا ہے اور قیامت چاہتا ہے
اسے معلوم ہے میں نے ہمیشہ سچ لکھا ہے
وہ پھر بھی جھوٹ کی مجھ سے حمایت چاہتا ہے

غزل
وہ اس انداز کی مجھ سے محبت چاہتا ہے
نصرت مسعود