وہ اک حسیں کبھی تنہا نہیں نکلتا ہے
کہ جیسے چاند اکیلا نہیں نکلتا ہے
ہر آدمی سے وفا کی امید مت رکھو
ہر اک زمین سے سونا نہیں نکلتا ہے
گھروں میں چاروں طرف قمقمے تو روشن ہیں
مگر دلوں سے اندھیرا نہیں نکلتا ہے
کچھ امتحان فقط امتحان ہوتے ہیں
ہر امتحاں کا نتیجہ نہیں نکلتا ہے
کبھی کبھی بڑی مشکل سے بات بنتی ہے
غزل کا شعر ہمیشہ نہیں نکلتا ہے
ہمارے درد کی دولت فقط ہماری ہے
زمانے جا ترا حصہ نہیں نکلتا ہے
کمالؔ اب تو عدو کی شناخت مشکل ہے
ہر ایک بم سے فلیتا نہیں نکلتا ہے
غزل
وہ اک حسیں کبھی تنہا نہیں نکلتا ہے
احمد کمال حشمی