EN हिंदी
وہ اک حسیں کبھی تنہا نہیں نکلتا ہے | شیح شیری
wo ek hasin kabhi tanha nahin nikalta hai

غزل

وہ اک حسیں کبھی تنہا نہیں نکلتا ہے

احمد کمال حشمی

;

وہ اک حسیں کبھی تنہا نہیں نکلتا ہے
کہ جیسے چاند اکیلا نہیں نکلتا ہے

ہر آدمی سے وفا کی امید مت رکھو
ہر اک زمین سے سونا نہیں نکلتا ہے

گھروں میں چاروں طرف قمقمے تو روشن ہیں
مگر دلوں سے اندھیرا نہیں نکلتا ہے

کچھ امتحان فقط امتحان ہوتے ہیں
ہر امتحاں کا نتیجہ نہیں نکلتا ہے

کبھی کبھی بڑی مشکل سے بات بنتی ہے
غزل کا شعر ہمیشہ نہیں نکلتا ہے

ہمارے درد کی دولت فقط ہماری ہے
زمانے جا ترا حصہ نہیں نکلتا ہے

کمالؔ اب تو عدو کی شناخت مشکل ہے
ہر ایک بم سے فلیتا نہیں نکلتا ہے