EN हिंदी
وہ ہزار ہم پہ جفا سہی کوئی شکوہ پھر بھی روا نہیں | شیح شیری
wo hazar hum pe jafa sahi koi shikwa phir bhi rawa nahin

غزل

وہ ہزار ہم پہ جفا سہی کوئی شکوہ پھر بھی روا نہیں

اخگر مشتاق رحیم آبادی

;

وہ ہزار ہم پہ جفا سہی کوئی شکوہ پھر بھی روا نہیں
کہ جفا تو ان کی خطا نہیں جنہیں کوئی قدر وفا نہیں

مری بد ظنی پہ یہ رنجشیں تو کسی بھی طور بجا نہیں
کہ جہان عشق میں بد ظنی تو حضور جرم و خطا نہیں

مرے عشق کو تری بے رخی ہی نصیب ہے تو یہی سہی
تری بے رخی رہے شادماں مجھے بے رخی کا گلا نہیں

یہ غلط کہ محفل ناز میں کوئی آشنائے نظر نہ تھا
کوئی تم سے کہہ تو رہا تھا کچھ مگر آہ تم نے سنا نہیں

انہیں اور علم رہ وفا یہ یقیں بھی آئے تو کس طرح
کہ انہی کے دامن ناز پر کہیں خاک راہ وفا نہیں

مرے اے دل الم آشنا کسی وہم میں نہ ہو مبتلا
تجھے رکھ سکیں گے وہ یاد کیا کبھی جن کا دل ہی دکھا نہیں

یہ مہ دو ہفتہ کی چاندنی میں دل شکستہ کی حسرتیں
کبھی میرے دل ہی سے پوچھ لو جو تمہارے دل کو پتا نہیں

یہ کمال جذبہ و سر نہیں ترے سنگ در ہی کی بات ہے
ترے ایک در پہ جو جھک گیا وہ ہزار در پہ جھکا نہیں

انہیں یوں نہ در سے ہٹائیے انہیں کچھ تو دے کے ہی ٹالیے
کہ وہی غریب دیار ہیں وہ غریب جن کا خدا نہیں