وہ حسب وعدہ نہ آیا تو آنکھ بھر آئی
مجھے تماشا بنایا تو آنکھ بھر آئی
سجا کے رکھتا تھا پلکوں پہ جس کو میں اکثر
نظر سے اس نے گرایا تو آنکھ بھر آئی
ہمیشہ کرتا تھا میری جو ناز برداری
اسی کا ناز اٹھایا تو آنکھ بھر آئی
جسے سمجھتا تھا میں دل نواز جب اس سے
سکون قلب نہ پایا تو آنکھ بھر آئی
وہ مجھ سے بھرتا تھا دم دوستی کا لیکن جب
عدو سے ہاتھ ملایا تو آنکھ بھر آئی
نہ تھا یہ وہم و گماں مجھ کو وہ بلائے گا
اچانک اس نے بلایا تو آنکھ بھر آئی
نہیں ہے شکوہ کوئی دشمنوں سے اے برقیؔ
فریب دوست سے کھایا تو آنکھ بھر آئی
غزل
وہ حسب وعدہ نہ آیا تو آنکھ بھر آئی
احمد علی برقی اعظمی