وہ ہمیں کیسے بھلا اہل وفا مانے گا
خود پہ نازاں ہے اداؤں کا صلہ مانے گا
بے یقیں ہے ہم اگر اس کے لئے جان بھی دیں
قبر کو شعبدہ بازوں کا گڑھا مانے گا
عقل اکبر ہے تو کیا دل بھی ہے شہزادہ سلیم
عشق میں کون بزرگوں کا کہا مانے گا
پرسش حال نہیں ہے کوئی صحرا کی طرح
کیوں نہ بستی کو جنوں دشت نما مانے گا
جو بھی دیتا ہے کسی اور سے دلواتا ہے
ہر کوئی کیسے بھلا رب کی عطا مانے گا
غزل
وہ ہمیں کیسے بھلا اہل وفا مانے گا
منّان بجنوری