وہ ہمیں جس قدر آزماتے رہے
اپنی ہی مشکلوں کو بڑھاتے رہے
وہ اکیلے میں بھی جو لجاتے رہے
ہو نہ ہو ان کو ہم یاد آتے رہے
یاد کرنے پہ بھی دوست آئے نہ یاد
دوستوں کے کرم یاد آتے رہے
آنکھیں سوکھی ہوئی ندیاں بن گئیں
اور طوفاں بدستور آتے رہے
پیار سے ان کا انکار برحق مگر
لب یہ کیوں دیر تک تھرتھراتے رہے
تھیں کمانیں تو ہاتھوں میں اغیار کے
تیر اپنوں کی جانب سے آتے رہے
کر لیا سب نے ہم سے کنارا مگر
ایک ناصح غریب آتے جاتے رہے
مے کدے سے نکل کر جناب خمارؔ
کعبہ و دیر میں خاک اڑاتے رہے
غزل
وہ ہمیں جس قدر آزماتے رہے
خمارؔ بارہ بنکوی