وہ ہماری سمت اپنا رخ بدلتا کیوں نہیں
رات تو گزری مگر سورج نکلتا کیوں نہیں
ٹھیک اٹھتے ہیں قدم بھی راہ بھی ہموار ہے
بوجھ اپنی زندگی کا پھر سنبھلتا کیوں نہیں
جس طرح وہ چاہتا ہے ڈھال لیتا ہے ہمیں
وہ ہمارے دل کے پیمانے میں ڈھلتا کیوں نہیں
کیا محبت میں کبھی ہوتی ہے ایسی کیفیت
وہ قریب جاں ہے لیکن دل بہلتا کیوں نہیں
آدمی کے دل کا جوہر یوں تو ایماں ہے مگر
آج کل بازار میں سکہ یہ چلتا کیوں نہیں
جانے کیسی ہیں یہ زنجیریں ہمارے پاؤں میں
گرمیٔ رفتار سے لوہا پگھلتا کیوں نہیں
اس مآل شوق پر سب ہاتھ ملتے ہیں مگر
تو کبھی افسرؔ کف افسوس ملتا کیوں نہیں
غزل
وہ ہماری سمت اپنا رخ بدلتا کیوں نہیں
افسر ماہ پوری