EN हिंदी
وہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں | شیح شیری
wo humse dur hote ja rahe hain

غزل

وہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں

شکیل بدایونی

;

وہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں
بہت مغرور ہوتے جا رہے ہیں

بس اک ترک محبت کے ارادے
ہمیں منظور ہوتے جا رہے ہیں

مناظر تھے جو فردوس تصور
وہ سب مستور ہوتے جا رہے ہیں

بدلتی جا رہی ہے دل کی دنیا
نئے دستور ہوتے جا رہے ہیں

بہت مغموم تھے جو دیدہ و دل
بہت مسرور ہوتے جا رہے ہیں

وفا پر مردنی سی چھا چلی ہے
ستم کا نور ہوتے جا رہے ہیں

کبھی وہ پاس آئے جا رہے تھے
مگر اب دور ہوتے جا رہے ہیں

فراق و ہجر کے تاریک لمحے
سراپا نور ہوتے جا رہے ہیں

شکیلؔ احساس گمنامی سے کہہ دو
کہ ہم مشہور ہوتے جا رہے ہیں