EN हिंदी
وہ ہیں تیار عمارت کو گرانے والے | شیح شیری
wo hain tayyar imarat ko girane wale

غزل

وہ ہیں تیار عمارت کو گرانے والے

نبیل احمد نبیل

;

وہ ہیں تیار عمارت کو گرانے والے
تو کہاں ہے مری بنیاد اٹھانے والے

سوچتا ہوں سر ساحل کھڑا جانے کب سے
ڈوب جاتے ہیں کہاں پار لگانے والے

ان سے کہہ دو نہ کریں دست ہوس ہم پہ دراز
ہم تو پینے سے زیادہ ہیں پلانے والے

غم کی تعبیر سے پہلے مجھے معلوم نہ تھا
میرے اشعار کو سنگیت بنانے والے

بادباں تیز ہواؤں سے پھٹے جاتے ہیں
ڈوب جائیں نہ کہیں پار لگانے والے

رات ہوتی ہے تو جلتے ہیں مری آنکھوں میں
یہ ستارے جو ہیں سورج کے گھرانے والے

کچھ تو ہے جس سے ہے باقی تری دنیا کا جواز
کم ہی دیکھے ہیں تعلق کو نبھانے والے

یوں ہی معیار بدلتے رہے دنیا کے اگر
پھر کہاں آئیں گے ملنے وہی آنے والے

بانٹتے پھرتے ہیں ہر سمت اندھیروں کو نبیلؔ
سلسلہ اپنے چراغوں کا بڑھانے والے