وہ ہے اپنا یہ جتانا بھی نہیں چاہتے ہم
دل کو اب اور دکھانا بھی نہیں چاہتے ہم
آرزو ہے کہ وہ ہر بات کو خود ہی سمجھے
دل میں کیا کیا ہے دکھانا بھی نہیں چاہتے ہم
ایک پردے نے بنا رکھا ہے دونوں کا بھرم
اور وہ پردہ ہٹانا بھی نہیں چاہتے ہم
تہمتیں ہم پہ لگی رہتی ہیں لیکن پھر بھی
آسماں سر پہ گرانا بھی نہیں چاہتے ہم
خود نمائی ہمیں منظور نہیں ہے ہرگز
ایسے قد اپنا بڑھانا بھی نہیں چاہتے ہم
دس سے ملنا ہے اسے ایک ہیں ان میں ہم بھی
اس طرح اس کو بلانا بھی نہیں چاہتے ہم
ہم سے ملنے کی تڑپ جب نہیں اس کو میناؔ
ہاتھ پھر اس سے ملانا بھی نہیں چاہتے ہم
غزل
وہ ہے اپنا یہ جتانا بھی نہیں چاہتے ہم
مینا نقوی