وہ گرد ہے کہ وقت سے اوجھل تو میں بھی ہوں
پھر بھی غبار جیسا کوئی پل تو میں بھی ہوں
خواہش کی وحشتوں کا یہ جنگل ہے پر خطر
مجھ سے بھی احتیاط کہ جنگل تو میں بھی ہوں
لگتا نہیں کہ اس سے مراسم بحال ہوں
میں کیا کروں کہ تھوڑا سا پاگل تو میں بھی ہوں
وہ میرے دل کے گوشے میں موجود ہے کہیں
اور اس کے دل میں تھوڑی سی ہلچل تو میں بھی ہوں
نکلے ہو قطرہ قطرہ محبت تلاشنے
دیکھو ادھر کہ پیار کی چھاگل تو میں بھی ہوں
کیسے اسے نکالوں میں زندان ذات سے
زندان ذات ہی میں مقفل تو میں بھی ہوں
ماضی کے آئنے میں عطاؔ کوئی خوش ادا
شکوہ کناں تھا کہتا تھا سانول تو میں بھی ہوں
غزل
وہ گرد ہے کہ وقت سے اوجھل تو میں بھی ہوں
عطاء الحق قاسمی