وہ ایک شخص کہ منزل بھی راستا بھی ہے
وہی دعا بھی وہی حاصل دعا بھی ہے
میں اس کی کھوج میں نکلا ہوں ساتھ لے کے اسے
وہ حسن مجھ پہ عیاں بھی ہے اور چھپا بھی ہے
میں در بدر تھا مگر بھول بھول جاتا تھا
کہ اک چراغ دریچے میں جاگتا بھی ہے
کھلا ہے دل کا دریچہ اسی کی دستک پر
جو مجھ کو میری نگاہوں سے دیکھتا بھی ہے
یہ میری سرحد جاں میں قدم دھرا کس نے
کہ محو خواب ہوں آنکھوں میں رت جگا بھی ہے
اسے وہ بھولنے لگتا ہے جو اسے بھولے
عطاؔ کہ دل زدہ بھی اور سر پھرا بھی ہے
غزل
وہ ایک شخص کہ منزل بھی راستا بھی ہے
عطاء الحق قاسمی