وہ ایک شخص کہ جو ساتھ ساتھ پھرتا تھا
نظر جو بدلی تو پھر وہ نظر نہیں آیا
پھرا کیے ہیں چہل سال دشت وحشت میں
کسی کو یاد ترا رہ گزر نہیں آیا
بہت جتایا کسی نے کہ ساتھ ساتھ تھا وہ
ہمیں تو یاد کوئی ہم سفر نہیں آیا
کہا تھا شام سے پہلے ہی لوٹ آئے گا
ہمیں خیال رہا رات بھر نہیں آیا
تھکے ہوئے تھے بہت بیٹھ جاتے سائے میں
ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آیا
یہ راہ کوہ ندا ہے قدم نہ اپنے بڑھا
وہاں سے لوٹ کے کوئی بشر نہیں آیا
بہت حدود زمان و مکاں سے دور گئے
ہمیں تو راس کبھی بھی سفر نہیں آیا
نہیں کہ یاد پتا اس کو میرے گھر کا نہ تھا
تمام شہر میں گھوما ادھر نہیں آیا
مثال سایہ تھا وہ پھر بھی دور دور رہا
ہزار سال ہوئے لوٹ کر نہیں آیا
رہا رقیب سے حجت میں قادریؔ مصروف
مگر وہ لے کے تمہاری خبر نہیں آیا
غزل
وہ ایک شخص کہ جو ساتھ ساتھ پھرتا تھا
خالد حسن قادری