وہ ایک شخص کہ باعث مرے زوال کا تھا
زمیں سے ملتا ہوا رنگ اس کے جال کا تھا
دل و نگاہ میں جھگڑا بھی منفرد تھا مگر
جو فیصلہ ہوا وہ بھی بڑے کمال کا تھا
میں جان دینے کا دعویٰ وہاں پہ کیا کرتا
جو مسئلہ اسے درپیش تھا مثال کا تھا
میں چاہتا تھا کہ وہ خود بخود سمجھ جائے
تقاضا اس کی طرف سے مگر سوال کا تھا
یہ اور بات کہ بازی اسی کے ہاتھ رہی
وگرنہ فرق تو لے دے کے ایک چال کا تھا
تمام عمر گنوا دی جسے بھلانے میں
وہ نصف ماضی کا قصہ تھا نصف حال کا تھا
میں پہلے زخم پہ چونکا تھا درد سے لیکن
پھر اس کے بعد کسے ہوش اندمال کا تھا
غزل
وہ ایک شخص کہ باعث مرے زوال کا تھا
انعام الحق جاوید