وہ ایک لڑکی جو خندہ لب تھی نہ جانے کیوں چشم تر گئی وہ
ابھی تو بیٹھی سسک رہی تھی ابھی نہ جانے کدھر گئی وہ
وہ لڑکی لگتی تھی اجنبی سی ذرا سے کھٹکے پہ چونکتی تھی
یہ اس کے ساتھ حادثہ ہوا کیا کہ بیٹھے بیٹھے بکھر گئی وہ
وہ کوئی شے اپنی کھو چکی تھی وہ ڈھونڈھتی اس کو پھر رہی تھی
وہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں تلاش میں در بدر گئی وہ
نہ ہم نوا تھا نہ ہم زباں تھا نہ درد کا کوئی رازداں تھا
بس اپنی آنکھوں سے قطرہ قطرہ ٹپک ٹپک کر بکھر گئی وہ
نہ کوئی دیوار و در تھا کوئی نہ ہم سفر ہم سخن تھا کوئی
بچاری کا کوئی گھر کہاں تھا کہ کہہ دیں ہم اپنے گھر گئی وہ
تمام انجان کوچے گلیاں تمام کانٹے تمام چھریاں
کسی طرح اپنا دل سنبھالے بچا کے دامن گزر گئی وہ
کسی سے قول و قرار تھا کیا کہ وعدوں کا اعتبار تھا کیا
جہاں کوئی سرخ جوڑا دیکھا تو دل کو تھامے ٹھہر گئی وہ
ستاروں سے جا کے مل گئی ہے کہ بادلوں میں چھپی ہوئی ہے
اڑان اس کی بہت بڑی تھی اگرچہ بے بال و پر گئی وہ
رہی وہ سارے چمن میں انجمؔ بے آشنا اور بے شناسا
میں کہتی ہوں پار اتر گئی وہ زمانہ کہتا ہے مر گئی وہ
غزل
وہ ایک لڑکی جو خندہ لب تھی نہ جانے کیوں چشم تر گئی وہ
صوفیہ انجم تاج