وہ ایک خواب کہ آنکھوں میں جگمگا رہا ہے
چراغ بن کے مجھے روشنی دکھا رہا ہے
وہ صرف حق جو مرے لب سے آشکار ہوا
سکوت دیر میں اک عمر گونجتا رہا ہے
مرے سخن میں جو اک لو سی تھرتھراتی ہے
چراغ شب سے مرا بھی مکالمہ رہا ہے
مرے لیے یہ خد و خال کی حقیقت کیا
وہ خاک ہوں کہ جسے چاک پھر بلا رہا ہے
میں سوچتا ہوں کوئی دشت کیا سمیٹے گا
وہ وحشتیں ہیں مجھے خود بھی خوف آ رہا ہے
سخن کے آئینہ خانے کو خیر ہو شہبازؔ
زمانہ سنگ بکف ہے ادھر کو آ رہا ہے
غزل
وہ ایک خواب کہ آنکھوں میں جگمگا رہا ہے
شہباز خواجہ