EN हिंदी
وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی | شیح شیری
wo dilbar hain to goya dilbari karni paDegi

غزل

وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی

رخشندہ نوید

;

وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی
انہیں کے نام دل کی ڈائری کرنی پڑے گی

وہ ان کو جانتے ہیں اور ان کے حال دل کو
سو ان کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑے گی

ہمارے درمیاں یہ دکھ ہی قدر مشترک ہیں
سو ہم کو اجتماعی خودکشی کرنی پڑے گی

بدن کو روح سے محروم کر ڈالا گیا ہے
بسر اس طور ہی اب زندگی کرنی پڑے گی

بلایا جائے کیسے اس شناسائے سخن کو
بپا اک بزم شعر و شاعری کرنی پڑے گی

بہت مدت سے ہنسنا بھول کر بیٹھی ہوئی ہے
تمہیں رخشندہؔ شاید گدگدی کرنی پڑے گی