وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے
رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے
اگر وفا پہ بھروسہ رہے نہ دنیا کو
تو کوئی شخص محبت کا حوصلہ نہ کرے
بجھا دیا ہے نصیبوں نے میرے پیار کا چاند
کوئی دیا مری پلکوں پہ اب جلا نہ کرے
زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے
قتیلؔ جان سے جائے پر التجا نہ کرے
غزل
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے
قتیل شفائی