وہ دل بھی جلاتے ہیں رکھ دیتے ہیں مرہم بھی
کیا طرفہ طبیعت ہے شعلہ بھی ہیں شبنم بھی
خاموش نہ تھا دل بھی خوابیدہ نہ تھے ہم بھی
تنہا تو نہیں گزرا تنہائی کا عالم بھی
چھلکا ہے کہیں شیشہ ڈھلکا ہے کہیں آنسو
گلشن کی ہواؤں میں نغمہ بھی ہے ماتم بھی
ہر دل کو لبھاتا ہے غم تیری محبت کا
تیری ہی طرح ظالم دل کش ہے ترا غم بھی
انکار محبت کو توہین سمجھتے ہیں
اظہار محبت پر ہو جاتے ہیں برہم بھی
تم رک کے نہیں ملتے ہم جھک کے نہیں ملتے
معلوم یہ ہوتا ہے کچھ تم بھی ہو کچھ ہم بھی
پائی نہ شمیمؔ اپنے ساقی کی نظر یکساں
ہر آن بدلتا ہے مے خانے کا موسم بھی

غزل
وہ دل بھی جلاتے ہیں رکھ دیتے ہیں مرہم بھی
شمیم کرہانی