EN हिंदी
وہ دھوپ وہ گلیاں وہی الجھن نظر آئے | شیح شیری
wo dhup wo galiyan wahi uljhan nazar aae

غزل

وہ دھوپ وہ گلیاں وہی الجھن نظر آئے

صابر وسیم

;

وہ دھوپ وہ گلیاں وہی الجھن نظر آئے
اس شہر سے اس شہر کا آنگن نظر آئے

اس غم کے اجالے میں جو اک شخص کھڑا ہے
وہ دور سے مجھ کو مرا ساجن نظر آئے

اک ہجر کے شعلے میں کئی بار جلے ہم
اس آس میں شاید کہ نیا پن نظر آئے

یہ رات گئے کون ہے اس پیڑ کے نیچے
اک دیپ سا ہر شاخ پہ روشن نظر آئے

وہ بات کہو جس کو ترستی رہے دنیا
وہ حرف لکھو جس میں کوئی فن نظر آئے