وہ دھوپ وہ گلیاں وہی الجھن نظر آئے
اس شہر سے اس شہر کا آنگن نظر آئے
اس غم کے اجالے میں جو اک شخص کھڑا ہے
وہ دور سے مجھ کو مرا ساجن نظر آئے
اک ہجر کے شعلے میں کئی بار جلے ہم
اس آس میں شاید کہ نیا پن نظر آئے
یہ رات گئے کون ہے اس پیڑ کے نیچے
اک دیپ سا ہر شاخ پہ روشن نظر آئے
وہ بات کہو جس کو ترستی رہے دنیا
وہ حرف لکھو جس میں کوئی فن نظر آئے

غزل
وہ دھوپ وہ گلیاں وہی الجھن نظر آئے
صابر وسیم