EN हिंदी
وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی | شیح شیری
wo dekhte jate hain kanakhiyon se idhar bhi

غزل

وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی

بیخود دہلوی

;

وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی
چلتا ہوا جادو ہے محبت کی نظر بھی

اٹھنے کی نہیں دیکھیے شمشیر نظر بھی
پہلے ہی لچکتی ہے کلائی بھی کمر بھی

پھوٹیں مری آنکھیں جو کچھ آتا ہو نظر بھی
دنیا سے الگ چیز ہے فرقت کی سحر بھی

ساقی کبھی مل جائے محبت کا ثمر بھی
ان آنکھوں کا صدقہ کوئی ساغر تو ادھر بھی

بیتاب ہوں کیا چیز چرا لی ہے نظر نے
ہونے کو تو دل بھی ہے مرے پاس جگر بھی

گھر سمجھا ہوں جس کو کہیں تربت تو نہیں ہے
آتی ہے یہاں شام کی صورت میں سحر بھی

خاموش ہوں میں اور وہ کچھ پوچھ رہے ہیں
ماتھے پہ شکن بھی ہے عنایت کی نظر بھی

اس کے لب رنگیں کی نزاکت ہے نہ رنگت
غنچے بھی بہت دیکھ لیے ہیں، گل تر بھی

آتی ہے نظر دور ہی سے حسن کی خوبی
کچھ اور ہی ہوتی ہے جوانی کی نظر بھی

ہٹتی ہے جو آئینہ سے پڑ جاتی ہے دل پر
کیا شوخ نظر ہے کہ ادھر بھی ہے ادھر بھی

بیمار محبت کا خدا ہے جو سنبھل جائے
ہے شام بھی مخدوش جدائی کی سحر بھی

مے خانۂ عشرت نہ سہی کنج غریباں
آنکھوں کے چھلکتے ہوئے ساغر ہیں ادھر بھی

مل جائیں اگر مجھ کو تو میں خضر سے پوچھوں
دیکھی ہے کہیں شام جدائی کی سحر بھی

اے شوق شہادت کہیں قسمت نہ پلٹ جائے
باندھی تو ہے تلوار بھی قاتل نے کمر بھی

اے دل تری آہیں تو سنیں کانوں سے ہم نے
اب یہ تو بتا اس پہ کریں گی یہ اثر بھی

اک رشک کا پہلو تو ہے سمجھوں کہ نہ سمجھوں
گردن بھی ہے خم آپ کی نیچی ہے نظر بھی

کچھ کان میں کل آپ نے ارشاد کیا تھا
مشتاق اسی بات کا ہوں بار دگر بھی

سوفار بھی رنگین کئے ہاتھ بھی اس نے
آیا ہے بڑے کام میرا خون جگر بھی

چھپتی ہے کوئی بات چھپائے سے سر بزم
اڑتے ہو جو تم ہم سے تو اڑتی ہے خبر بھی

یوں ہجر میں برسوں کبھی لگتی ہی نہیں آنکھ
سو جاتا ہوں جب آ کے وہ کہہ دیتی ہیں مر بھی

کھلتا ہی نہیں بیخودؔ بدنام کا کچھ حال
کہتے ہیں فرشتہ بھی اسے لوگ بشر بھی