وہ دور قریب آ رہا ہے
جب داد ہنر نہ مل سکے گی
اس شب کا نزول ہو رہا ہے
جس شب کی سحر نہ مل سکے گی
پوچھو گے ہر اک سے ہم کہاں ہیں
اور اپنی خبر نہ مل سکے گی
آساں بھی نہ ہوگا گھر میں رہنا
توفیق سفر نہ مل سکے گی
خنجر سی زباں کا زخم کھا کے
مرہم سی نظر نہ مل سکے گی
اس راہ سفر میں سایۂ افگن
اک شاخ شجر نہ مل سکے گی
جاؤ گے کسی کی انجمن میں
پر اس سے نظر نہ مل سکے گی
اک جنس وفا ہے جس کو ہر سو
ڈھونڈو گے مگر نہ مل سکے گی
سیلاب ہوس امڈ رہا ہے
اک تشنہ نظر نہ مل سکے گی
غزل
وہ دور قریب آ رہا ہے (ردیف .. ی)
اطہر نفیس