EN हिंदी
وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں | شیح شیری
wo chandni mein jo Tuk sair ko nikalte hain

غزل

وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں

نظیر اکبرآبادی

;

وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں
تو مہ کے طشت میں گھی کے چراغ چلتے ہیں

پڑے ہوس ہی ہوس میں ہمیشہ گلتے ہیں
ہمارے دیکھیے ارمان کب نکلتے ہیں

ہجوم آہ ہے آنکھوں سے اشک ڈھلتے ہیں
بھرے ہیں چاؤ جو دل میں سو یوں نکلتے ہیں

چراغ صبح یہ کہتا ہے آفتاب کو دیکھ
یہ بزم تم کو مبارک ہو ہم تو چلتے ہیں

برنگ اشک کبھی گر کے ہم نہ سنبھلے آہ
یہی کہا کئے جی میں کہ اب سنبھلتے ہیں

نکالتا ہے ہمیں پھر وہ اپنے کوچے سے
ابھی تو نکلے نہیں ہیں پر اب نکلتے ہیں

فدا جو دل سے ہے ان شوخ سبزہ رنگوں پر
یہ ظالم اس کی ہی چھاتی پہ مونگ دلتے ہیں

ہوا نحیف بھی یاں تک کہ حضرت مجنوں
یہ مجھ سے کہتے ہیں اور ہاتھ اپنے ملتے ہیں

کوئی تو پگڑی بدلتا ہے اور سے لیکن
میاں نظیرؔ ہم اب تم سے تن بدلتے ہیں