وہ بجھ گیا تو اندھیروں کو بھی ملال رہا
وہ اک چراغ جو جلنے میں بھی بے مثال رہا
کبھی بھلا نہ سکا دل شکستگی اپنی
جڑا تو جڑ کے بھی اس آئنے میں بال رہا
مری حیات نے حاتم بنا دیا مجھ کو
ہر اک سوال کے بعد اک نیا سوال رہا
ہمیشہ میں نے بھی ناکامیوں سے کام لیا
تمام عمر مرا میرؔ جیسا حال رہا
تمہارے بعد کسی سے فریب کھایا نہیں
تمہارا مجھ سے بچھڑنا بھی نیک فال رہا
غموں کو حاوی نہ ہونے دیا کبھی دل پر
شب فراق بھی ذکر شب وصال رہا
کہاں حرم ہے کدھر کعبہ ہے کدھر رخ ہے
نماز عشق میں اس کا کہاں خیال رہا
غزل اسی کی تھی حاوی تمام غزلوں پر
وہاں بھی رونق بزم سخن کمالؔ رہا

غزل
وہ بجھ گیا تو اندھیروں کو بھی ملال رہا
احمد کمال حشمی