EN हिंदी
وہ بستر میں پڑی رہی | شیح شیری
wo bistar mein paDi rahi

غزل

وہ بستر میں پڑی رہی

نذیر قیصر

;

وہ بستر میں پڑی رہی
شام گلی میں کھڑی رہی

سوتے ہوئے بھی ہاتھوں میں
پھولوں کی چھڑی رہی

وہ کہیں باہر کھڑا رہا
رات فریم میں جڑی رہی

پیروں میں دن پڑا رہا
ہاتھوں میں ہتھکڑی رہی

ہونٹ بوند کو ترس گئے
ریت میں چھاگل پڑی رہی

اس دن کتنے پھول کھلے
اس دن کتنی جھڑی رہی

دیا طاق میں پڑا رہا
ماچس طاق میں پڑی رہی