وہ بگڑے ہیں رکے بیٹھے ہیں جھنجلاتے ہیں لڑتے ہیں
کبھی ہم جوڑتے ہیں ہاتھ گاہے پاؤں پڑتے ہیں
گئے ہیں ہوش ایسے گر کہیں جانے کو اٹھتا ہوں
تو جاتا ہوں ادھر کو اور ادھر کو پاؤں پڑتے ہیں
ہمارا لے کے دل کیا ایک بوسہ بھی نہیں دیں گے
وہ یوں دل میں تو راضی ہیں مگر ظاہر جھگڑتے ہیں
جو تم کو اک شکایت ہے تو مجھ کو لاکھ شکوے ہیں
لو آؤ مل بھی جاؤ یہ کہیں قصے نبڑتے ہیں
ادھر وہ اور آئینہ ہے اور کاکل بنانا ہے
ادھر وہم اور خاموشی ہے اور دل میں بگڑتے ہیں
یہاں تو سب ہماری جاں کو ناصح بن کے آتے ہیں
وہاں جاتے ہوئے دل چھٹتے ہیں دم اکھڑتے ہیں
نہ دل میں گھر نہ جا محفل میں یاں بھی بیٹھنا مشکل
ترے کوچے میں اب ظالم کب اپنے پاؤں گڑتے ہیں
سحر کو روؤں یا ان کو مناؤں دل کو یا روکوں
یہ قسمت وعدے کی شب جھگڑے سو سو آن پڑتے ہیں
کبھی جھڑکی کبھی گالی کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
بنے کیوں کر کہ سو سو بار اک دم میں بگڑتے ہیں
نظامؔ ان کی خموشی میں بھی صد ہا لطف ہیں لیکن
جو باتیں کرتے ہیں تو منہ سے گویا پھول جھڑتے ہیں
غزل
وہ بگڑے ہیں رکے بیٹھے ہیں جھنجلاتے ہیں لڑتے ہیں
نظام رامپوری