وہ بھی ہمیں سرگراں ملے ہیں
دنیا کے عجیب سلسلے ہیں
گزرے تھے نہ چشم باغباں سے
جو اب کی بہار گل کھلے ہیں
رکتا نہیں سیل گریۂ غم
اے ضبط یہ سب ترے صلے ہیں
کل کیسے جدا ہوئے تھے ہم سے
اور آج کس طرح ملے ہیں
پاس آئے تو اور ہو گئے دور
یہ کتنے عجیب فاصلے ہیں
سنتا نہیں کوئی سیفؔ ورنہ
کہنے کو تو سینکڑوں گلے ہیں
غزل
وہ بھی ہمیں سرگراں ملے ہیں
سیف الدین سیف