EN हिंदी
وہ بھی ہمیں سرگراں ملے ہیں | شیح شیری
wo bhi hamein sargiran mile hain

غزل

وہ بھی ہمیں سرگراں ملے ہیں

سیف الدین سیف

;

وہ بھی ہمیں سرگراں ملے ہیں
دنیا کے عجیب سلسلے ہیں

گزرے تھے نہ چشم باغباں سے
جو اب کی بہار گل کھلے ہیں

رکتا نہیں سیل گریۂ غم
اے ضبط یہ سب ترے صلے ہیں

کل کیسے جدا ہوئے تھے ہم سے
اور آج کس طرح ملے ہیں

پاس آئے تو اور ہو گئے دور
یہ کتنے عجیب فاصلے ہیں

سنتا نہیں کوئی سیفؔ ورنہ
کہنے کو تو سینکڑوں گلے ہیں