EN हिंदी
وہ بے ہنر ہوں کہ ہے زندگی وبال مجھے | شیح شیری
wo be-hunar hun ki hai zindagi wabaal mujhe

غزل

وہ بے ہنر ہوں کہ ہے زندگی وبال مجھے

آصف جمال

;

وہ بے ہنر ہوں کہ ہے زندگی وبال مجھے
کمال گر نہیں دیتا تو دے زوال مجھے

وہ بد گمان ہوا ہوں کہ اعتبار اٹھا
صداقتوں پہ بھی کیا کیا ہیں احتمال مجھے

میں اپنے آپ کو پہچاننے سے ڈرتا ہوں
تباہ کر گئی یہ گرد ماہ و سال مجھے

غضب ہوا تری یادوں نے ساتھ چھوڑ دیا
ہنوز میری محبت ہے اک سوال مجھے

یہ کیا ہوا کہ ہوس کی گرفت تنگ ہوئی
میں تجھ سے ہاتھ چھڑانے کو ہوں سنبھال مجھے

وہ فاصلے ہیں کہ آنکھوں میں خواب ناچتے ہیں
ملی فراق میں بھی لذت وصال مجھے

وہ بے وفا ہے تو اس کا بھی غم بہت ہے مگر
میں با وفا ہوں تو اس کا بھی ہے ملال مجھے