EN हिंदी
وہ برق کا ہو کہ موجوں کے پیچ و تاب کا رنگ | شیح شیری
wo barq ka ho ki maujon ke pech-o-tab ka rang

غزل

وہ برق کا ہو کہ موجوں کے پیچ و تاب کا رنگ

فاضل انصاری

;

وہ برق کا ہو کہ موجوں کے پیچ و تاب کا رنگ
جدا ہے سب سے مرے دل کے اضطراب کا رنگ

شگفتگی مجھے زخم جگر کی یاد آئی
چمن میں دیکھ کے کھلتے ہوئے گلاب کا رنگ

کیا نہ ترک اگر ترک عاشقی کا خیال
خراب اور بھی ہوگا دل خراب کا رنگ

لگا رہے ہیں وہ نشتر سے زخم پر مرہم
نگاہ لطف و کرم میں بھی ہے عتاب کا رنگ

یہ مے کدہ تو ہے خود انقلاب کی دنیا
یہاں جمے گا نہ دنیا کے انقلاب کا رنگ

حوادثوں سے جمال رخ حیات ہے یوں
قریب شام ہو جس طرح آفتاب کا رنگ

دل تباہ کا فاضلؔ خدا ہی حافظ ہے
کہ اب ہے اور ہی کچھ درد‌ و اضطراب کا رنگ