EN हिंदी
وہ بند مٹھیوں کو مری کھولنے نہ دے | شیح شیری
wo band muTThiyon ko meri kholne na de

غزل

وہ بند مٹھیوں کو مری کھولنے نہ دے

قاضی حسن رضا

;

وہ بند مٹھیوں کو مری کھولنے نہ دے
غیرت مگر زباں سے مجھے بولنے نہ دے

چاروں طرف سے مجھ کو بلاتا ہے آسماں
لیکن کشش زمین کی پر تولنے نہ دے

وہ مسکرا رہا ہے کنول بن کے فکر میں
کیچڑ میں اپنا جسم مجھے گھولنے نہ دے

دیوار شب کو توڑ کے در آئی روشنی
خواب گراں کہ آنکھ ادھر کھولنے نہ دے

روکے ہے تلخ بات سے میٹھی زباں مری
اک بوند زہر صدق مجھے گھولنے نہ دے

ہیروں میں تولتا ہے وہی اپنے آپ کو
جو مجھ کو بحر غم سے گہر رولنے نہ دے

کہتا ہے مثل صیقل آئینہ شعر کو
اپنے میں کوئی رنگ رضاؔ گھولنے نہ دے