وہ بند مٹھیوں کو مری کھولنے نہ دے
غیرت مگر زباں سے مجھے بولنے نہ دے
چاروں طرف سے مجھ کو بلاتا ہے آسماں
لیکن کشش زمین کی پر تولنے نہ دے
وہ مسکرا رہا ہے کنول بن کے فکر میں
کیچڑ میں اپنا جسم مجھے گھولنے نہ دے
دیوار شب کو توڑ کے در آئی روشنی
خواب گراں کہ آنکھ ادھر کھولنے نہ دے
روکے ہے تلخ بات سے میٹھی زباں مری
اک بوند زہر صدق مجھے گھولنے نہ دے
ہیروں میں تولتا ہے وہی اپنے آپ کو
جو مجھ کو بحر غم سے گہر رولنے نہ دے
کہتا ہے مثل صیقل آئینہ شعر کو
اپنے میں کوئی رنگ رضاؔ گھولنے نہ دے
غزل
وہ بند مٹھیوں کو مری کھولنے نہ دے
قاضی حسن رضا