وہ بہت خوش ہے خطابات و مراعات کے ساتھ
خوب بدلا وہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ
دل کے نزدیک پرے آنکھ سے رہنے والے
کیا تعلق ہے تری یاد کا برسات کے ساتھ
میری خواہش کا ذرا بھی نہ رکھا پاس اس نے
مجھ کو لوٹا دیا خط چند ہدایات کے ساتھ
نکہت و نور و ضیا حسن کی پہچان بنے
عشق منسوب ہوا بام خرابات کے ساتھ
میں نے لوٹا دیے سوغات و تحائف اس کے
مجھ کو منظور نہ تھی شرط عنایات کے ساتھ

غزل
وہ بہت خوش ہے خطابات و مراعات کے ساتھ
محمد عابد علی عابد