وہ اور بزم ہے جس میں چراغ جلتے ہیں
یہاں تو اپنے ہی دل اور دماغ جلتے ہیں
تم اپنی بزم فراغت سے دور دیکھو تو
خود اپنی آگ میں یاں کتنے باغ جلتے ہیں
نکل کے دیکھو حرم سے بہار دنیا کی
کہ بت کدہ میں ہزاروں چراغ جلتے ہیں
یہ فیض گرمیٔ دل ہے کہ جوش بادۂ تند
ہمارے ہاتھ میں آ کر ایاغ جلتے ہیں
عجیب سرد فضا ہے سواد عالم کی
خوشا وہ بزم جہاں دل کے داغ جلتے ہیں
کہاں فراغ کہ دل میں ہیں ولولے جس کے
ابھی تو ولولہ ہائے فراغ جلتے ہیں
غزل
وہ اور بزم ہے جس میں چراغ جلتے ہیں
خورشید الاسلام

