وہ ارزاں تو کریں جلوؤں کو دیوانے بھی آتے ہیں
جہاں شمعیں جلا کرتی ہیں پروانے بھی آتے ہیں
کچھ اس انداز سے آئے تری محفل میں دیوانے
کوئی یہ کہہ تو دے محفل میں دیوانے بھی آتے ہیں
یہ فطرت حسن کی ہے وہ تقاضا ہے محبت کا
وہ دل کو توڑنے کے بعد سمجھانے بھی آتے ہیں
سبھی صحن چمن میں پھول چننے کو نہیں آتے
کچھ اپنے دامنوں میں خار الجھانے بھی آتے ہیں
محبت کے گلستانوں میں پھلنے پھولنے والو
اسی رستے میں آگے چل کے ویرانے بھی آتے ہیں
نہیں معلوم ترک دوستی کے بعد کیوں محشر
وہ ترک دوستی پر بحث فرمانے بھی آتے ہیں
غزل
وہ ارزاں تو کریں جلوؤں کو دیوانے بھی آتے ہیں
محشر بدایونی